Posts

Showing posts from January, 2019

بادشاہ اور اس کا غلام فیروز

ایک بادشاہ محل کی چھت پر ٹہلنے چلا گیا۔ ٹہلتے ٹہلتے اسکی نظر محل کے نزدیک گھر کی چھت پر پڑی جس پر ایک بہت خوبصورت عورت کپڑے سوکھا رہی تھی۔ بادشاہ نے اپنی ایک باندی کو بلا کر پوچھا: کس کی بیوی ہے یہ؟ باندی نے کہا: بادشاہ سلامت یہ آپ کےغلام فیروز کی بیوی ہے۔ بادشاہ نیچے اترا ، بادشاہ پر اس عورت کے حسن وجمال کا سحر سا چھا گیا تھا۔ اس نے فیروز کو بلایا۔ فیروز حاضر ہوا تو بادشاہ نے کہا : فیروز ہمارا ایک کام ہے۔ ہمارا یہ خط فلاں ملک کے بادشاہ کو دے آو اور اسکا جواب بھی ان سے لے آنا۔ فیروز: اس خط کو لے کر گھر واپس آ گیا خط کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ دیا، سفر کا سامان تیار کیا، رات گھر میں گزاری اور صبح منزل مقصود پر روانہ ہو گیا اس بات سے لاعلم کہ بادشاہ نے اس کے ساتھ کیا چال چلی ہے۔ ادھر فیروز جیسے ہی نظروں سے اوجھل ہوا بادشاہ چپکے سے فیروز کے گھر پہنچا اور آہستہ سے فیروز کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ فیروز کی بیوی نےپوچھا کون ہے؟ بادشاہ نے کہا: میں بادشاہ ہوں تمہارے شوہر کا مالک۔ تواس نے دروازہ کھولا۔ بادشاہ اندر آ کر بیٹھ گیا۔ فیروز کی بیوی نے حیران ہو کر کہا: آج بادشاہ سلامت یہاں ہ

استاد

پڑھائے گا وہی جسے پڑھانا آتا ہے.......... ہر قابل شخص قابل استاد نہیں بن سکتا......... اگر آپ " زبان (لینگویج) " پڑھاتے ہیں اس کے باوجود آپ کا شاگرد بد زبان اور بدگو ہے تو آپ کو زبان پڑھانے کے بجائے زبان " سکھانے " کی فکر کرنی چاہیے........... آپ نے بچے کو ریاضی کا ہر سوال حل کرنے میں ماہر بنا دیا لیکن اگر وہ اپنی زندگی کے معمولی مسائل تک حل نہیں کرسکتا تو پھر آپ کو سوچنا چاہیے کہ آپ نے ریاضی تو اس کے لیے آسان کردی ہے لیکن زندگی مشکل کرگئے ہیں.......... میرا ٹیچنگ میں جتنا بھی تجربہ ہے میں نے یہ سیکھا ہے کہ بچہ کتاب سے کچھ بھی نہیں سیکھتا......... کتاب تو ایک بے جان چیز ہے وہ بھی نصاب کی کتاب.......... ........سکھاتا تو استاد ہے....... آپ قرآن کی مثال لے لیں بھلا اس سے زیادہ اور کوئی کتاب کیا پُر اثرکتاب ہوگی؟؟؟؟؟ لیکن ہمارے لیے......... " رول ماڈل " اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت مبارکہ ہے. تب ہی قرآن کی آیات ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں.......... آپ بچے کو جو کچھ سکھانا چاہتے ہیں وہ بن کر دکھا دیں بچہ خود سب کچھ سیکھ لے گا.........

عورت کے لیے ایک شادی کا حکم کیوں؟

عورت کیلئے ایک ہی شادی کا حکم کیوں سائنس کے دائرے میں قرآنی معجزات کی ایک جھلک ایک ماہرِ جنین یہودی (جو دینی عالم بھی تھا) کھلے طور پر کہتا ہے کہ روئے زمین پر مسلم خاتون سے زیادہ پاک باز اور صاف ستھری کسی بھی مذھب کی خاتون نہیں ہے پورا واقعہ یوں ہے کہ الپرٹ اینسٹاین انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ایک ماہرِ جنین یہودی پیشوا روبرٹ نے اپنے قبول اسلام کا اعلان کیا جس کا واحد سبب بنا قرآن میں مذکور مطلقہ کی عدت کے حکم سے واقفیت اور عدت کیلئے تین مہینے کی تحدید کے پیچھے کارفرما حکمت سے شناسائی اللہ کا فرمان ہے والمطلقات یتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء [البقرة:228] "مطلقات اپنے آپکو تین حیض تک روکے رکھیں" اس آیت نے ایک حیرت انگیز جدید علم ڈی این اے کے انکشاف کی راہ ہموار کی اور یہ پتا چلا کہ مرد کی منی میں پروٹین دوسرے مرد کے بالمقابل 62 فیصد مختلف ہوا کرتی ہے اور عورت کا جسم ایک کمپیوٹر کی مانند ہے جب کوئی مرد ہم بستری کرتا ہے تو عورت کا جسم مرد کی تما بیکٹریاں جذب ومحفوظ کر لیتا ہے اس لئے طلاق کے فورا بعد اگر عورت کسی دوسرے مرد سے شادی کرلے یا پھر بیک وقت کئی لوگوں سے جسمانی تعلقات

استاد

پڑھائے گا وہی جسے پڑھانا آتا ہے.......... ہر قابل شخص قابل استاد نہیں بن سکتا......... اگر آپ " زبان (لینگویج) " پڑھاتے ہیں اس کے باوجود آپ کا شاگرد بد زبان اور بدگو ہے تو آپ کو زبان پڑھانے کے بجائے زبان " سکھانے " کی فکر کرنی چاہیے........... آپ نے بچے کو ریاضی کا ہر سوال حل کرنے میں ماہر بنا دیا لیکن اگر وہ اپنی زندگی کے معمولی مسائل تک حل نہیں کرسکتا تو پھر آپ کو سوچنا چاہیے کہ آپ نے ریاضی تو اس کے لیے آسان کردی ہے لیکن زندگی مشکل کرگئے ہیں.......... میرا ٹیچنگ میں جتنا بھی تجربہ ہے میں نے یہ سیکھا ہے کہ بچہ کتاب سے کچھ بھی نہیں سیکھتا......... کتاب تو ایک بے جان چیز ہے وہ بھی نصاب کی کتاب.......... ........سکھاتا تو استاد ہے....... آپ قرآن کی مثال لے لیں بھلا اس سے زیادہ اور کوئی کتاب کیا پُر اثرکتاب ہوگی؟؟؟؟؟ لیکن ہمارے لیے......... " رول ماڈل " اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت مبارکہ ہے. تب ہی قرآن کی آیات ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں.......... آپ بچے کو جو کچھ سکھانا چاہتے ہیں وہ بن کر دکھا دیں بچہ خود سب کچھ سیکھ لے گا.........

برداشت

1....صدر ایوب خان پاکستان کے پہلے ملٹری ڈکٹیٹر تھے‘ وہ روزانہ سگریٹ کے دو بڑے پیکٹ پیتے تھے‘ روز صبح ان کا بٹلر سگریٹ کے دو پیکٹ ٹرے میں رکھ کر ان کے بیڈ روم میں آجاتاتھا اورصدر ایوب سگریٹ سلگا کر اپنی صبح کا آغاز کرتے تھے‘ وہ ایک دن مشرقی پاکستان کے دورے پر تھے‘ وہاں ان کا بنگالی بٹلرانہیں سگریٹ دینا بھول گیا‘ جنرل ایوب خان کو شدید غصہ آیا اورانہوں نے بٹلر کو گالیاں دینا شروع کر دیں… جب ایوب خان گالیاں دے دے کر تھک گئے تو بٹلر نے انہیں مخاطب کر کے کہا ’’جس کمانڈر میں اتنی برداشت نہ ہو وہ فوج کو کیا چلائے گا… ؟ مجھے پاکستانی فوج اور اس ملک کا مستقبل خراب دکھائی دے رہا ہے‘‘… بٹلر کی بات ایوب خان کے دل پر لگی‘ انہوں نے اسی وقت سگریٹ ترک کر دیا اور پھر باقی زندگی سگریٹ کو ہاتھ نہ لگایا… 2.... آپ نے رستم زمان گاما پہلوان کا نام سنا ہوگا… ہندوستان نے آج تک اس جیسا دوسرا پہلوان پیدا نہیں کیا‘ ایک بار ایک کمزور سے دکاندار نے گاما پہلوان کے سر میں وزن کرنے والاباٹ مار دیا… گامے کے سر سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے‘ گامے نے سرپر مفلر لپیٹا اور چپ چاپ گھر لوٹ گیا… لوگوں نے کہا… ’’ پہلوان صاحب آپ